اللہ اللہ کر کے اورنج ٹرین سروس کا آغاز شہر لاہور میں ہو گیا بہت سے نشیب وفراز آئے قیاس آرائیوں سے لے کر بہتان بازی تک کا بازار گرم رہا۔پاکستان میں اورنج ٹرین کے حوالے سے بہت شور شرابہ پچھلے کئی ماہ و سال سے جاری ہے اور شائد جاری رہے گا جس گورنمنٹ نے شروع کیا تھا سے لے کر جس گورنمنٹ میں مکمل ہوا ہر کوئی اس کا کریڈٹ لینا چاہ رہا ہے ۔یہ ٹرین علی ٹاون ٹھوکر نیاز بیگ سے ڈیرہ گجراں تک لوکل روٹ پہ چلے گی ۔ جو ٹریک بچھایا گیا اس کی لمبائی تقریباً ستائیس کلومیٹر بنتی ہے یہ چین اقتصادی راہداری کے تحت چینی حکومت نے اس کے اخراجات برداشت کئے لیکن یہ گارنٹی نہیں کہ وہ اپنا سرمایہ واپس نہیں لے گی ۔دوسری طرف معاشی ماہرین اس منصوبے کو نقصان میں چلنے والا منصوبہ بلکہ سفید ہاتھی سے مشابہت دے رہے ہیں کیونکہ پنجاب گورنمنٹ کرائے کی مد میں غریب اور عام ادمی کو سبسڈی دے گی۔تاکہ وہ ٹکٹ خرید سکیں ۔ یہ منصوبہ عوام دوست تو ہو گا مگر ملکی خزانے اور صوبائی ذرائع آمدنی پر اس کا اچھا اثر نہیں پڑے گا۔ اور پھر اپنے ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ پی آئی اے ہو، کراچی اسٹیل مل ہو، کراچی ٹرام سے لے کر جی ٹی ایس بس سروس ہو یا آر ٹی بی سی بس سروس ہو جو بھی حکومت کا ملکیتی ادارہ ہوتا ہے اس میں سیاسی بھرتیوں سے لے کر اس کے ایمپلائز تک تمام اس طرح کے اداروں کو گِدھوں کی طرح نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں کوئ چیک اینڈ بیلنس کا سسٹم نہیں ہوتا۔ کوئ پوچھنے والا نہیں ہوتا اندھیر نگری چوپٹ راج ہوتا ہے۔2015 میں اس منصوبے کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ ایک کھرب باسٹھ ارب روپے تھا جو ستائس ماہ میں مکمل ہونا تھا لیکن حکومتوں کی تبدیلی سے منصوبے کی تاخیر ہوئی کچھ ڈالرز کے ریٹ میں تبدیلی کی وجہ سے یہ منصوبہ تقریباً تین کھرب روپے میں مکمل ہوا یہ مہنگا ترین منصوبہ ہے جس کا روزانہ کا نقصان تقریباً تین کروڑ روپے ہو گا اس رقم سے پنجاب حکومت پنجاب کے مختلف شہروں میں بیالیس جدید ہسپتال اور دس ہزار سے زائد تعلیمی ادارے بنا سکتی تھی۔ لیکن نااہل حکمرانوں کی ذاتی انا ناقص منصوبہ بندی اور کک بیکس جیسے گھناونے دھندوں کی وجہ سے ملک کو تباہی کے دھانے پہ پہنچا رکھا ہے ۔یہاں سوال تو بنتا ہے ان حکمرانوں سے جن کے ہاتھوں میں بیچارے پاکستانیوں کا مستقبل تھما دیا جاتا ہے جو اس طرح کے ناقص منصوبے صرف اپنی ذاتی پسند ناپسند اور اپنی جیبیں بھرنے کے لئے شروع کرتے ہیں اپنی اور اپنی اولادوں کے لئے حرام مال اکٹھا کرنے کے لئے لگے رہتے ہیں یہ منصوبہ جو لاہور میں شروع کیا گیا۔ کیا پنجاب کے باقی شہروں قصبوں میں بسنے والے انسان نہیں؟ کیا ان کا ان کے بچوں کا حق نہیں کہ وہ بھی اچھے سکولوں میں پڑھیں، انہیں اچھے ہسپتالوں میں فری سہولتیں میسر ہو ؟ روزمرہ کی بنیادی ضروریات زندگی حاصل ہوں صاف پانی پی سکیں، روزگار کے سلسلہ میں بڑے بڑے شہروں میں دھکے نا کھانے پڑیں۔معزز قارئین یہ سوال صرف ایک جماعت سے نہیں بنتا ہر اس سیاسی جماعت اور ان کے قائدین، فوجی سربراہان سے لے کر پاکستان کے ہر ادارے کے سربراہ سے بنتا ہے سوال تو بنتا ہے ن لیگ کے قائدین سے کیا آپ کو صرف لاہور ہی نظر اتا ہے؟ جنوبی پنجاب کے کن کن اضلاع یا قصبوں میں کیا ایک بھی کوئی میگا پراجیکٹ شروع کیا؟ کیا وہاں انسان نہیں بستے؟ اپنی ذاتی انا کی تسکین اور حرام مال کمانے کے چکر میں غریب عوام کا مستقبل تاریکیوں میں دھکیلا جاتا رہا اپنی اولادوں کے لئے تو برطانیہ میں حرام مال سے محل خریدے گئے اور غریب پاکستانی عوام کو تڑپنے سسکنے مرنے کے لئے چھوڑ دیا۔پیپلزپارٹی سے بھی سوال بنتا ہے کی آپ پچھلے کئی سالوں سے سندھ میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں آپ نے اپنی جیبیں بھرنے کے علاوہ کیا کام کیا کراچی جیسے روشنیوں کے شہر کو غلاظت کے ڈھیر اور گندی بستیوں میں تبدیل کر دیا آپ کے دور حکومت میں غریب عورتیں باہر سڑکوں پہ بچوں کو جنم دیتی ہیں بچوں کی ڈیڈ باڈیز ریڑھی میں ڈال کر گھروں کو لے جاتی ہیں آپ کے کتےاےسی والے کمروں میں سوتے ہیں اپ خود منرل پانی پیتے ہیں لیکن آپ کو تھل میں روتے بلکتے بچوں کی آہ و پکار سنائی نہیں دیتی ۔آپ کے وزراء کرپشن میں بےتاج بادشاہ ہیں آپ پر آپ کے خاندان پر کک بیکس اور ناجائز دولت کمانے کے کیسز ہیں سرے محل بنا رکھے ہیں سوال تو مولانا فضل الرحمان سے بھی بنتا ہے کہ پچھلے تیس چالیس سالوں میں ہر جمہوری اور آرمی ڈکٹیٹرز کے دور میں ان کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کے مزے لیتے رہے لیکن اپنے مدارس کے بچوں کو صرف دینوی تعلیم تک محدود رکھتے ہیں کبھی ان بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے ان کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ان کی صحت کے لئے کچھ کیا؟ مدارس کے بچوں کو صرف احتجاجی مظاہروں اور ڈنڈے کھانے کے لئے استعمال کیا ۔ اپنے علاقے میں عورتوں کی تعلیم سے لیکر ان کے ووٹ ڈالنے کے لئے کوئی ایک کام کیا ؟ صرف اپنے بھائیوں بیٹے کو نوازنے کے علاوہ کوئی ایک کام جو عوام کی بہتری کے لئے کیا ہو ؟ سوال تو بنتا ہے سراج الحق صاحب سے بھی آپ نے بھی ہمیشہ سڑک کے مخالف ہی گاڑی دوڑائی جب موقع آیا اس وقت حکومتوں میں پیٹھ دکھائی کبھی کسی اچھے کاز کے لئے احتجاج تک نہیں کیا۔سوال تو بنتا ہے عمران خان صاحب سے بھی آپ تو کہتے تھے نئے چہرے لاؤں گا ریاست مدینہ بناو گا انصاف ہو گا لوٹا ہوا پیسہ واپس دلاو گا نا پیسہ واپس آیا نا عوام کو انصاف ملا مگر وہی پرانے چلے ہوئے کارتوس کرپشن کے کیسوں میں پھنسے ہوئے افراد کو آپ کے ارد گرد جمع دیکھا . مان لیا آپ نہیں کھاتے مگر یہ جو منڈی ساتھ لگائ ہوئ ہے کیا یہ سب دودھ میں دھل ک ے آئے ہیں وہی پرانی حکومتوں میں وزیر مشیر تھے وہی آج آپ کے ساتھ دائیں بائیں بیٹھے ہوئے ہیں کیا آپ ایسے اور ان بھگوڑوں کے ساتھ چلائیں گے ریاست مدینہ؟ سوال تو بنتا ہے ان آرمی کے ڈکٹیٹرز سے بھی جو شب خون مار کر حکومتوں میں آتے ہیں اور اپنی مرضی سے ملک کے آئین میں تبدیلی کر کے اپنے مارشل لاء کو طول دے کر ہر قسم کے مزے لیتے ہیں اور دس پندرہ سال حکومت کر کے دوسرے ملکوں میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں خود تو مزے کی زندگیاں گزارتے ہیں اور عوام کو انہیں اندھیروں میں دھکے کھانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں سوال تو بنتا ہے اس پڑھی لکھی بیوروکریسی عدلیہ سے بھی وہ خود تو گورنمنٹ کے سکولوں سے پڑھ لکھ کر اچھی پوسٹوں پہ تعینات ہو جاتے ہیں رشوت کی دلدل میں خوب دھنستے جاتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں بڑے شہروں یا امریکہ برطانیہ جیسے ممالک میں شفٹ ہو جاتے کبھی اپنے آبائی گاوں قصبے کی فکر نہیں کرتے جس گاوں یا قصبوں سے تعلق ہوتا ہے ان کی ترقی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کرتے وہاں کوئی اچھا سکول کالج یا ڈسپنسری تک بنوانے کی کوشش نہیں کرتے کہ کسی اور غریب کا بچہ بھی پڑھ لکھ جائے ۔بس اپنی اور اپنی اولادوں کی فکر میں لگے رہتے ہیں سوال تو پاکستان کی گونگی بہری عوام سے بھی بنتا ہے کہ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی انہیں مکاروں لٹیروں ڈاکوؤں کو ووٹ دے کر بار بار اقتدار میں لاتے ہیں وہ بار بار ان کا ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل تاریک سے تاریک کرتے ہیں ملک کو تباہ وبرباد کرتے ہیں لیکن عوام پھر بھی انہیں کے آگے بندروں کی طرح ڈگڈگی پہ ناچتے جھومتے ان کو سروں پہ بٹھا کر پھر اقتدار کی کرسیوں پہ بٹھا دیتے ہیں بعد میں اپنی قسمت کا رونا روتے رہتے ہیں سجھنا چاہیے کہ اندرون سندھ سے لے کر بلوچستان تک، جنوبی پنجاب سے لیکر قبائلی علاقوں تک وہاں کی غریب عوام کو ہمیشہ بنیادی سہولیات سے ان سیاسی بازی گروں، بیوروکریسی، مولویوں نے دور رکھا تاکہ ان میں سے کوئی پڑھ لکھ کر شعور نا حاصل کر لے اور ان کے ہاتھ ان کی گردنوں تک نا آ جائیں لیکن اللہ کریم تو ہے جس نے اپنی رسی دراز کی ہوئ ان جیسوں کے لئے جب میرا رب وہ کھینچے گا تو ان جیسے ملک دشمنوں کا صفحہ ہستی سے نام تک مٹ جائے گا انشاءاللہ
۔۔۔۔۔